Aaj News

بدھ, اپريل 24, 2024  
15 Shawwal 1445  

جنرل باجوہ اور ڈگلس میک آرتھر کے المیے میں مماثلت

"بوڑھے فوجی مرتے نہیں۔۔۔۔" جنرل باجوہ نے جنرل ڈگلس میک آرتھر کا قول نقل کیوں کیا؟
اپ ڈیٹ 29 نومبر 2022 04:48pm

سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے کمان تبدیلی کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ ”میں عنقریب بے نامی میں چلا جاؤں گا“، اس کے ساتھ ہی انہوں نے امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر کا ایک جملہ دہرایا جس مطلب ہے ”پرانے سپاہی مرتے نہیں، وہ بس دھندلا جاتے ہیں۔“

انہوں نے جس امریکی جنرل کا جملہ نقل کیا ان کے آخری دن بھی جنرل باجوہ سے کچھ حد تک مماثل رہے ہیں۔ جس طرح جنرل باجوہ کو اپنے دورِ سربراہی میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو جنرل ڈگلس نے بھی اپنے آخری دن بدنامی میں گزارے۔ لیکن دونوں کی جوہات قدرے مختلف تھیں۔

جنرل ڈگلس میک آرتھر کون؟

 جنرل ڈگلس میک آرتھر (تصویر بزریعہ وکی پیڈیا)
جنرل ڈگلس میک آرتھر (تصویر بزریعہ وکی پیڈیا)

چھبیس جنوری 1880 میں پیدا ہونے والے ڈگلس میک آرتھر ایک فوجی جنرل تھے جنہوں نے امریکا کے ساتھ ساتھ فلپائنی فوج میں فیلڈ مارشل کے طور پر خدمات انجام دیں۔

جنرل 1930 کی دہائی امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف تھے، اور انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران پیسیفک تھیٹر میں نمایاں کردار ادا کیا۔

 ڈگلس میک آرتھر جنگِ لیت کے موقع پر (تصویر: وکی پیڈیا)
ڈگلس میک آرتھر جنگِ لیت کے موقع پر (تصویر: وکی پیڈیا)

میک آرتھر 1937 میں امریکی فوج سے ریٹائر ہوگئے تھے، لیکن 1941 میں انہیں مشرق بعید میں امریکی فوج میں بطور کمانڈر واپس بلایا گیا۔ جہاں 8 دسمبر 1941 کو ان کی فضائی افواج کی تباہی اور فلپائن پر جاپانی حملے کے بعد تباہی کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ میک آرتھر کی افواج کو جلد ہی باتان کی طرف واپس جانے پر مجبور کردیا گیا، جہاں وہ مئی 1942 تک رہے۔

مارچ 1942 میں میک آرتھر، اپنے خاندان اور عملہ سمیت کشتیوں کے زریعے آسٹریلیا فرار ہو گئے، جہاں وہ جنوب مغربی پیسفک ایریا کے سپریم کمانڈر بن گئے۔

 جاپانی افواج کا فلپائن میں کامیابن حملے کا ایک منظر
جاپانی افواج کا فلپائن میں کامیابن حملے کا ایک منظر

آسٹریلیا آمد پر اپنی تقریر میں میک آرتھر نے وعدہ کیا کہ ”میں فلپائن واپس آؤں گا“۔ دو سال سے زیادہ جاری رہنے والی لڑائی کے بعد انہوں نے وہ وعدہ پورا کیا۔

فلپائن کے دفاع کے لیے میک آرتھر کو میڈل آف آنر سے نوازا گیا۔ انہوں نے باضابطہ طور پر 2 ستمبر 1945 کو یو ایس ایس میسوری پر جاپانی سرینڈر کو قبول کیا جو ٹوکیو بے میں لنگر انداز تھا۔

 یو ایس ایس میسوری پر جاپانی سرینڈر کی تقریب
یو ایس ایس میسوری پر جاپانی سرینڈر کی تقریب

انہوں نے ابتدائی کامیابی کے ساتھ کوریائی جنگ میں اقوام متحدہ کی کمان کی قیادت کی۔ تاہم، شمالی کوریا کے حملے نے چینیوں کو مشتعل کیا، جس سے بڑی شکستوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

کوریا جنگ میں بدترین ناکامیوں پر میک آرتھر کے خلاف شدید تنقید کا کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں 11 اپریل 1951 کو صدر ہیری ایس ٹرومین نے متنازع طور پر انہیں کمانڈ سے ہٹا دیا۔

ڈگلس میک آرتھر کا انتقال 84 سال کی عمر میں 5 اپریل 1964 کو واشنگٹن ڈی سی میں ہوا، اور اس طرح ایک شاندار افسر کا فوجی کیرئیر بدنامی کے ساتھ ختم ہوا۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div