Aaj News

جمعہ, مارچ 29, 2024  
18 Ramadan 1445  

مسجدیں لاکھوں بنیں لیکن۔۔۔

مسجدیں لاکھوں بنیں اور سینکڑوں مندر بنے۔ تو کیا یہ مسجد بھی ان لاکھوں مسجدوں جیسی عام سی مسجد ہو گی یا اس میں کوئی...
شائع 14 نومبر 2022 06:13pm
مسجد وزیر خان (تصویر بزریعہ مصنف غلام قادر چوہدری)
مسجد وزیر خان (تصویر بزریعہ مصنف غلام قادر چوہدری)

مسجدیں لاکھوں بنیں اور سینکڑوں مندر بنے۔ تو کیا یہ مسجد بھی ان لاکھوں مسجدوں جیسی عام سی مسجد ہو گی یا اس میں کوئی امتیازی بات ہو گی؟

مسجدیں تو ہر گلی محلے میں ہوتی ہیں اور بنتی ہی رہتی ہیں۔

ایمان کی حرارت والے تو شب بھر میں مسجد بنا دیتے ہیں۔ چاہے پاپی من برسوں میں بھی نمازی نہ بن سکے۔

میری خود کلامی جاری تھی۔

ہمارے سائے گھٹتے گھٹتے معدوم ہو رہے تھے جب ہم سینٹرل پارک ماڈل ٹاؤن سے نکلے۔ تین دنیادار سوئے مسجد رواں تھے اور ہم ایسے دنیا دار تھے جو مسجد میں عبادت کرنے نہیں، بلکہ اسے دیکھنے جا رہے تھے۔

زندہ دلان لاہور کی ٹریفک میں لت پت ہوتے، کچھ بچتے اور دوسروں کو بچاتے جب ہم دہلی دروازے کے قریب پہنچے تو دوپہر اور گرمی ہونے کے باوجود لوگوں کا وہ اژدہام تھا کہ ہمیں پارکنگ کے لئے جگہ ڈھونڈنا کار دشوار لگ رہا تھا۔ بدقت تمام ایک جگہ گاڑی کھڑی کی۔ غالباً اہل لاہور کو تین غریب الدیاروں کی آمد کی خبر مل چکی تھی۔ اور وہ ہمارے ”استقبال“ کے لیے جوق در جوق آئے ہوئے تھے۔

مغلوں کی بنائی ہوئی شاہی گزرگاہ پر ہم ”عوام“ چل رہے تھے۔

کچھ فاصلہ پیدل طے کرنے کے بعد جونہی ایک موڑ مڑے، مسجد وزیر خاں کا داخلی دروازہ اپنی پرشکوہ ہیبت کے ساتھ ہمارے سامنے تھا۔ مسجد میں داخلے کے لئے دو دروازے ہیں۔ ایک شمال مشرق کی جانب اور دوسرا مشرقی جانب صدر دروازہ۔ ہم اس وقت مشرقی صدر دروازے کے آگے کھڑے تھے۔ ہمارے سامنے سنگ سرخ سے بنی ہوئی سیڑھیاں دروازے تک بلند ہو رہی تھیں۔

دروازے کے درمیان میں ایک منقش دو منزلہ محراب بنی ہوئی تھی اور دائیں بائیں آسمان کو چھوتے مینار ایسے بلند ہو رہے تھے، جیسے دروازے کی حفاظت کے لئے باڈی گارڈ مقرر کئے گئے ہوں۔ اگر ہمارے سروں پر پگڑیاں ہوتیں تو مینار کو دیکھتے ہوئے یقیناً نیچے گر چکی ہوتیں۔ اور ہم پتنگ باز اور کبوتر باز بھی نہیں تھے کہ مینار کو تادیر تکتے رہتے اور ہماری گردنیں نہ تھکتیں۔ قبل اس کے کہ گرمی کی شدت سے اوپر دیکھتے دیکھتے ہم خود زمیں بوس ہو جاتے، ہم نے اپنی نگاہوں کو زمیں بوس ہو جانے دیا۔ جب داخلی دروازے اور مینار کے سحر سے نکلے تو اندر داخل ہوئے۔

لیکن منیر نیازی کے بقول،

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

تو جب صدر دروازے سے اندر داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک طویل ڈیوڑھی نما سا راستہ ہے اور اس کے آخر پر ایک اور دروازہ ہے۔ اور سیاں کو صحن تک پہنچنے کے لئے اس دروازے میں سے بھی گزرنا پڑے گا، سو گزر گئے۔

لیکن میر ہمیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ

سرسری تم جہان سے گزرے

کیونکہ

”یہاں“ ہر جا جہان دیگر تھا

اور ہم تو دیکھنے ہی آئے تھے۔

میرے سامنے ایک وسیع صحن تھا جس کے درمیان پانی کا حوض بنا ہوا تھا۔ سورج کی کرنیں جب پانی سے ٹکرا کر منعکس ہوتیں تو آنکھوں کو چندھیا جاتیں۔ لیکن یہ تو ابھی بعد کے مرحلے تھے۔ داخلی دروازے کے آگے موجود صحن کی چکا چوند نے ہی مجھے تقریبا اندھا کر دیا تھا۔ اور میں آنکھیں بند کئے اسی جگہ پر گویا پتھر کا ہو گیا تھا۔

جانے کتنے لمحے گزرے، جانے کتنی صدیاں گزریں

مغل فرمانروا جہانگیر کا دور حکومت تھا اور بادشاہ کی لاڈلی ملکہ نورجہاں سخت علیل تھیں۔ بادشاہ سخت پریشان تھا۔ اس سے ملکہ کی بیماری دیکھی نہیں جاتی تھی۔ پوری سلطنت میں ملکہ کے علاج کے لئے ڈھنڈورا پیٹ دیا جاتا ہے۔ یہی نقارہ چنیوٹ میں شیخ علم الدین انصاری تک بھی پہنچتا ہے۔ اور قسمت اس نوجوان طبیب کو مغلیہ دارالحکومت آگرہ لے آتی ہے۔ بڑی مشکلوں سے مغل شاہی دربار تک رسائی ہوتی ہے۔

خالق کائنات نے ملکہ کے لئے شفا اس طبیب کی دوا میں رکھ چھوڑی تھی۔ تو ملکہ کیسے تندرست نہ ہوتی۔ ملکہ نور جہاں صحتیاب ہوئی تو نوجوان طبیب کو شاہی انعامات کے ساتھ مغل دربار میں منصب ہفت ہزاری بھی پیش کیا گیا۔ اور شیخ علم الدین انصاری کو وزیر خاں کا لقب عطا کیا گیا۔ جہانگیر کے بعد شاہ جہاں کے دور میں انہیں امیر الامراء کے خطاب سے نواز کر ناظم لاہور مقرر کر دیا گیا۔

وزیر خاں نے 1632ء سے لے کر 1639ء تک لاہور پر حکمرانی کی۔

اسی دوران قدرت وزیر خاں سے ایک اور کام لینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ایک رات وزیر خاں کو خیال آتا ہے کہ

کیا بھروسہ زندگیِ مستعار کا، تو کچھ آخرت کا ساماں بھی کر لیا جائے۔ سوچتے سوچتے وہ ایک مسجد بنانے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ صبح ہوتے ہی جگہ کی تلاش شروع کر دی جاتی ہے اور دہلی دروازہ کے قریب ایک خطہ منتخب کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح 1635ء میں مسجد کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔

سید محمد اسحاق المعروف میراں بادشاہ کے مزار اور حجرہ کے گرد مسجد کی تعمیر شروع ہو گئی۔ یہ تعمیر تقریبا سات سال تک جاری رہی اور دسمبر 1641ء میں مسجد مکمل ہوئی۔

اور انہی علم الدین انصاری وزیر خاں نے ہی ابھرتا ہوا صنعتی شہر وزیر آباد بھی قائم کیا تھا۔

”قادر بھائی“

شائد میں وہیں جامد کھڑا رہ جاتا، اگر میرے ساتھی مجھے زمانہء حال میں نہ لے آتے۔

ہم آگے بڑھے اور چھوٹی سرخ اینٹوں سے بنے صحن میں چلتے ہوئے مسجد کے درودیوار دیکھنے لگے۔ پتہ نہیں یہ فن تعمیر کا تقاضا ہے یا مغلوں کی ذہنی اپج تھی کہ مسجد کی تعمیر میں سرخ رنگ زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ صحن میں موجود حوض کے ساتھ مزار اور حجرہ ہے۔ اور تین اطراف میں 32 کے قریب چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ داخلی دروازے کے بالکل سامنے مغرب کی جانب مسجد کا مرکزی ہال ہے۔ جب ہم چلتے چلتے حوض کے قریب پہنچے تو احساس ہوا کہ صحن دو حصوں میں منقسم ہے۔ مشرق والا حصہ قدرے نیچا ہے اور مغرب والا کچھ اونچا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ کچھ اونچا حصہ صحن خاص کہلاتا ہے اور دوسرا صحن عام۔

یہ کیسا امتیاز ہے۔

اے اللہ۔ تیرے گھر میں بھی خاص و عام کی تخصیص۔

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

صحن خاص میں پانچ محرابیں بنی ہوئی ہیں۔ درمیان میں بڑی محراب اور اس کے دونوں اطراف دو دو نسبتا چھوٹی محرابیں۔ ساتھ ہی کچھ طاقچے بنے ہوئے ہیں۔ جن میں آیت الکرسی سمیت مختلف آیات قرآنی کندہ کی گئی ہیں۔ درمیان والی بڑی محراب میں تین زینوں والا ایک قدیم چوبی منبر بھی ہے۔ منبر کے ساتھ ایک جانب قرآن پاک رکھنے کے لئے میز نما حصہ بھی بنا ہوا ہے۔

مسجد کے چار مینار ہیں جو 100 فٹ سے زیادہ بلند ہیں۔ یہ چاروں مینار بھی چھوٹی سرخ اینٹوں سے تعمیر کئے گئے ہیں اور ہشت پہلو ہیں۔ جن پر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔ مسجد پر کل 6 گنبد بنے ہوئے ہیں۔ ایک گنبد مسجد میں داخلی دروازے سے منسلک ڈیوڑھی پر ہے اور بقیہ 5 گنبد صحن خاص کے قریب والے ہال پر بنے ہوئے ہیں۔

جب مسجد بنی تو اس کا انتظام اور متولیت نسل در نسل وزیر خاں کے خاندان میں ہی رہی۔ اور مسجد کے زیر سایہ دوکانوں کی آمدن سے یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر اس کی ملکیت کے دعویدار بڑھنے لگے۔ دعویدار بڑھنے کے ساتھ اختلافات بھی پیدا ہونے لگے اور بات کورٹ کچہری تک جا پہنچی۔ آج کل یہ محکمہ اوقاف پنجاب کے زیرانتظام ہے۔

ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور کی مشہور بادشاہی مسجد، وزیر خاں مسجد کے 32 سال بعد تعمیر ہوئی تھی۔

”قادر بھائی، آپ بار بار پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ تھک تو نہیں گئے؟“ حارث بٹ نے بڑی شگفتگی سے پوچھا۔

”صدیوں کا سفر طے کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ تھکنا تو ہے ہی۔“

کچھ اور لوگ بھی مسجد دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ میرے ساتھی بھی مختلف حصوں کی تصویریں بنا رہے تھے۔ میرا ذہن تاریخ کی بھول بھلیوں میں الجھا ہوا تھا۔ مجھے مسجد میں گھومتے ہوئے ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ لیکن کوئی خلش ضرور تھی جو بےچین کئے ہوئے تھی۔

”اللہ اکبر۔“

”اللہ اکبر۔“

میرے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا۔ جیسے کسی نے الیکٹرک شاک لگا دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اس اعلان نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ مجھ پر وہ خلش واشگاف کر دی تھی۔ جو مجھے مسلسل بے چین کر رہی تھی۔

ہمارے دماغوں میں تاریخ دانوں، لکھاریوں، ادیبوں کے جملے گونج رہے تھے اور ہماری آنکھیں کیمرے کے ویو فائنڈر سے چپکی ہوئی تھیں۔ ہمارے دل تقدس سے خالی تھے۔ ہم ایک ٹورسٹ کی حیثیت سے، ایک تماش بین کی طرح مسجد دیکھنے آئے تھے۔ ایک عابد کی طرح عبادت کرنے نہیں آئے تھے۔

ہمارے دل کی سلیٹ پر پہلے سے ہی بہت کچھ لکھا ہوا تھا۔ اس پر کچھ نیا لکھنے کی جگہ ہی نہیں بچی تھی۔ ہم مسجد کے ظاہری شکوہ و شوکت کو دیکھ رہے تھے، مسجد میں ہونے کے باوجود مسجد والے کی عظمت سے منہ موڑے ہوئے تھے۔ اور یہی بات تھی جو مجھے اضطراب میں مبتلا کئے ہوئے تھی۔

سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد جب لاہور سکھوں کے زیرِ نگیں آیا تو سکھا شاہی نے لاہور کی تقریباً تمام تاریخی عمارتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ سنگ سرخ اور دیگر قیمتی پتھر تک اتار لئے گئے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر مسجد وزیر خاں ان کی دست برد سے محفوظ رہی۔ مسجد کے محفوظ رہنے کے متعلق دو روایات بیان کی جاتی ہیں۔

ایک روایت کے مطابق سکھوں کے گرو ارجن سنگھ سے وزیر خاں کے ذاتی تعلقات تھے جو عقیدت مندی کی حدوں کو چھوتے تھے۔ تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ان تعلقات کا خیال کرتے ہوئے مسجد کو نقصان پہنچانے سے احتراز کیا۔ اور وزیر خاں کی اولاد کو اس سلسلے میں پریشان نہیں کیا۔

جبکہ دوسری روایت کنہیا لال کپور نے اپنی کتاب تاریخ لاہور میں بھی بیان کی ہے۔ کنہیا لال کے مطابق ایک بار مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنے وقت کی ایک طوائف موراں کے ساتھ مسجد میں آیا۔ اور دن بھر مسجد کے ایک مینار پر رنگ رلیاں مناتا رہا۔ قدرت خدا سے وہ اسی رات سخت بیمار ہو گیا۔ ہر طرف چہ مگوئیاں پھیل گئیں کہ مہاراجہ نے مسجد کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ اسی وجہ سے مسجد کے احاطہ میں مدفون بزرگ اسحاق گازرونی المعروف میراں بادشاہ سخت ناراض ہیں۔ اور مہاراجہ کی بیماری اسی وجہ سے ہے۔ جب یہ باتیں مہاراجہ تک پہنچیں تو اگلے دن وہ مزار پر حاضر ہوا۔ پانچ سو روپیہ نذرانہ پیش کیا۔ توبہ کی اور آئندہ کبھی مسجد کی حرمت کو پامال کرنے کا خیال تک نہ آنے دیا۔

مغلیہ طرز تعمیر کا یہ شاہکار اتنا خوبصورت اور دلکش منظر پیش کرتا ہے کہ اس کی شہرت برصغیر پاک و ہند سے باہر پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ مسجد وزیر خاں پاکستان کے ان چند آثار قدیمہ میں سے ایک ہے جو اقوام متحدہ کے تحت عالمی ثقافتی ورثہ قرار دئیے گئے ہیں۔

وزارت تعلیم کے ذیلی ادارے پاکستان نیشنل کمیشن فار یونیسکو نے 1993 میں درخواست دی کہ مسجد وزیر خاں کو یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج میں شامل کیا جائے۔ یہ درخواست منظور ہوئی اور اس طرح 14 دسمبر 1993 کو مسجد وزیر خاں کو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کر لیا گیا۔

مغلیہ دور کی یہ شاندار، باوقار اور پرشکوہ عمارت بلاشبہ شہر لاہور کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کی تعمیر اتنی شاندار ہے کہ تقسیم سے پہلے جب یہاں انگریزوں کی حکومت تھی، اس وقت میو اسکول آف آرٹس کے طلباء کو فن تعمیر سے آشنائی کی خاطر مسجد وزیر خان کے مطالعاتی دورے کرائے جاتے تھے۔

یہی میو اسکول آف آرٹس بعد میں نیشنل کالج آف آرٹس کے نام سے مشہور ہوا۔

میو اسکول آف آرٹس کے پہلے پرنسپل جان لاکووڈ کپلنگ مسجد وزیر خاں کے متعلق لکھتے ہیں کہ

”یہ خوبصورت عمارت بذات خود تزئین کی ایک درسگاہ ہے، لیکن سال بہ سال اِس کی نگہداشت کی طرف توجہ کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے اور اِس کے نقش و نگار عدم توجہی کی وجہ سے خراب ہو رہے ہیں۔ اِن حالات میں یہ نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اِن کے چربے یا نقول نہایت احتیاط سے اُتار کر عجائب گھر اور اسکول میں محفوظ کردیے جائیں، ہمارے نوجوان مصوروں کے لیے اِس سے بہتر اور کہیں تربیت نہیں ہوسکتی۔“

مسجد وزیر خاں کو بجا طور پر لاہور کا فخر کہا جا سکتا ہے۔ ماضی میں اس کی مرمت اور بحالی کے لیے حکومت پنجاب اور آغا خاں فاؤنڈیشن کے تعاون سے کئی منصوبوں پر عملدرآمد ہوا ہے۔ لیکن ابھی بھی اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی فن تعمیر کی اس زندہ یادگار کو محفوظ رکھا جا سکے۔

ہمارے معدوم ہو جانے والے سائے پھر لمبے ہو رہے تھے، جب ہم مسجد وزیر خاں سے رخصت ہوئے۔

جب ہم آئے تھے تو تہی داماں تھے اور اب اس کی معیت میں گزرے لمحوں سے بوجھل ہو رہے تھے۔ لیکن اس بوجھل پن میں ایک سرخوشی اور اطمینان نمایاں تھا۔ اور ایک تبدیلی ہم میں یہ آئی تھی کہ آتے ہوئے ہم خوب چہک رہے تھے۔ اور رخصت ہوتے وقت ہم اپنے آپ میں گم تھے۔ شائد ہم گزرے لمحوں کے سود و زیاں کا حساب کر رہے تھے یا ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے انداز میں اس سے ہم کلام تھا، جو پکار پکار کر اعلان کر رہا ہے کہ

فاینما تولوا فثم وجه الله۔

اور جس طرف بھی دیکھو، اسی طرف وجہ اللہ ہے۔

الوداع مسجد وزیر خاں الوداع۔

Wazir Khan Mosque

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div