Aaj News

جمعہ, مارچ 29, 2024  
18 Ramadan 1445  

بدنامی کے خوف سے خواتین سندھ پولیس میں شامل ہونے سے گریزاں

' پولیس میں بھرتی بھی ہوجاؤں تو ساری رات جاگ کر مرد اہلکار کے ساتھ ڈیوٹی کیسے کروں'
اپ ڈیٹ 10 نومبر 2022 09:44pm
تصویر بزریعہ نمائندہ آج نیوز، حضور بخش منگی
تصویر بزریعہ نمائندہ آج نیوز، حضور بخش منگی

سندھ کے پسماندہ علاقوں میں بعض ایسے بھی اضلاع ہیں، جن میں ایک بھی لیڈی پولیس اہلکار موجود نہیں ہے، جب کہ لاڑکانہ، قمبر شہدادکوٹ، جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی ودیگر اضلاع میں تو ویسے ہی خواتین شاذ و نادر ہی محکمہ پولیس میں بھرتی کے لیے تیار ہوتی ہیں اور ان علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا پولیس میں بھرتی ہونا اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے.

کالج طالبہ طوبہ حسن کہتی ہیں کہ سندھ پولیس میں بھرتی ہونا فخر کی بات ہے مگر یہاں پر قبائلی نظام کی وجہ سے والدین کی بدنامی برداشت کرنا مشکل کام ہے۔ اس سے بہتر ہے کسی این جی او کی جاب کرلی جائے کیوں کہ لڑکیاں پولیس افسران کے غلط رویوں کی افواہوں سے بھرتی ہونے سے گریز کرتی ہیں۔

طوبہ کہتی ہیں کہ اکثر سنا جاتا ہے پولیس اہلکار عوام کے ساتھ غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے ہیں اور ملزمان سے لڑتے ہیں مارتے ہیں، دوسرا اگر پولیس میں بھرتی بھی ہوجاؤں تو ساری رات جاگ کر مرد اہلکار کے ساتھ ڈیوٹی کیسے کروں۔ اگر کچھ بھی نا ہو توبھی بدنامی ضرور ہوتی ہے۔ تیسرا مسئلہ پولیس میں بھرتی ہوجائے تو گھر والے شک و شہبات کی نگاہوں دیکھیں گے۔

واحد خاتون انسپکٹر

اس حوالے سے انسپکٹر سیدہ غلام فضا شاہ کہتی ہیں کہ میں خود شکارپور ضلع سے تعلق رکھتی ہوں اور ضلع کشمور میں قبائلی اور جاگیرداری نظام قائم ہے جس کی وجہ سے عورتیں پولیس ڈپارٹمنٹ میں بھرتی نہیں ہوتیں۔

انہوں نے بتایا کہ مجھے پولیس میں بطور انسپکٹر 2004 میں تعینات کیا گیا، میں نے پرویز مشرف کے دور حکومت میں میں تحریری امتحان دیا تھا ، میرے شوہر نے میرا ساتھ دیا تھا جس کی بدولت آج مجھے فخر ہوتا ہے۔

انسپکٹر غلام فضا کہتی ہیں کہ میرے ساتھ تھانے دار صاحب تعاون کرتے ہیں، جب کسی عورت ملزم کا واقعہ نہ پیش آئے تب تک مجھے ڈیوٹی کرنے میں نرمی دیتے ہیں، ایک مرتبہ ایک واقعہ میں مجرم کے گھر میں داخل ہونا پڑا تھا جہاں جانی خطرہ بھی اٹھانا پڑا، عورتوں کی تلاشی لیتے وقت لڑائی ہوگئی تھی، اس دوراں میرے افسران نے سپورٹ کیا۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک مطالبہ ضرور کرونگی، لیڈی پولیس انسپکٹر کا مخصوص الگ تھانہ ہونا چاھئے اور تھانے میں کم سے کم دس لیڈی پولیس اہلکار فراہم کی جائیں تاکہ ہم اپنے فرائض باآسانی انجام دے سکیں، دوسرا مسئلہ لیڈی پولیس اہلکار اور انسپکٹر کو یہاں کے لوگ غلط نگاہوں سے دیکھتے ہیں، ان کے لیے سخت قانون نافذ کیا جائے۔

قوم پرست مؤقف

قوم پرست رہنما گھایل سندھی کہتے ہیں کہ سندھ پولیس میں خاص کر ضلع کشمور میں قبائلی سسٹم کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کو پولیس میں بھرتی کرانا عیب سمجھا جاتا ہے ، پولیس ڈپارٹمنٹ میں اپنی بیٹیوں کو غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے، فورس کی ڈیوٹی مرد دن رات کرتے ہیں جبکہ عورت کا رات کو نکلنا محال ہوتا ہے۔ اگر میری بیٹی یا بہن پولیس ڈپارٹمنٹ میں ہوں گی تو ان کی شادی کے لیے بھی مسئلہ بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس افسران کے غلط رویوں کی وجہ سے ہماری عورتیں سندھ پولیس میں بھرتی ہونے سے گریز کرتی ہیں۔

’آئی جی سندھ کو کئی بار لکھ چکے‘

ایس ایس پی زبیر نذیر شیخ کا کہنا ہے کہ دیکھیں کشمور ضلع کے اندر ایک وومن چالڈ پروٹیکشن سینٹر ہے جہاں پر لیڈی پولیس کی لازمی ضرورت ہے، کیوں کہ وومن چالڈ پروٹیکشن سینٹر میں تشدد ، زیادتیوں کے کیسز میں عورت ہو یا بچے ہوں انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے، جن کی دیکھ بھال کرنے کے لیے میل کانسٹیبل مجبوراً مقرر کرتے ہیں جنہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

انہوں نے کہا کہ یہاں پر اکثر زیادتیوں کے یا پھر کارو کاری اور قتل و غارت جیسے واقعات میں لیڈی پولیس کی ضرورت پڑتی ہے ہم نے کئی بار آئی جی سندھ کو لکھا ہے کہ ہمارے ضلع میں سپاہی سے انسپکٹر جیسے عہدوں کے لیے کم سے کم بیس لیڈی کانسٹیبل چاہئیں، مگر یہاں اس علاقے میں ٹرائیبل ایریا ہونے کی وجہ سے خواتین پولیس میں بھرتی ہونے میں عدم دلچسپی کا شکار نظر آتی ہیں۔

مقدمہ کمزور

ڈسٹرکٹ بار کاؤنسل صدر ایڈوکیٹ محسن پٹھان کا کہنا ہے کہ کرمنل پروسیجر کوڈ سیکشن 04/ S کے تحت صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ جہاں پر تھانے کی ضرورت سمجھی جائے وہاں پر تھانہ قائم کرسکتی ہے ۔

”بہت تکلیف دہ بات ہے کہ ہمارے ضلع ریمووٹ ایریاز ہیں جہاں پر عورت مرد کے ساتھ کام نہیں کرسکتی۔ جب تک وومن تھانہ بحال نہیں کیا جاسکتا تب تک عورتیں پولیس میں بھرتی ہونے سے گریزاں ہوں گی۔“

انہوں نے کہا کہ ایس ایس پی کو چاہئے کہ وہ وومن تھانے کے لیے آئی جی سندھ کو لکھ کر بھیجیں ، اور اسکولز کالجز میں پولیس میں بھرتی ہونے کی آگاہی مہم چلائی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وومین پولیس اسٹیشن ہونا چاہئیے، مذکورہ قانون سیکشن 04/s کے مطابق ملزم عورت کو لیڈی کانسٹیبل کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا ، ورنہ مقدمہ کمزور ہوجائے گا۔

رعایت کا مطالبہ

سماجی رہنما راجا گوپی چند کا کہنا ہے ک محکمہ پولیس میں بھرتی کے لیے خواتین کو خصوصی رعایت ملنی چاہیے، خاص طور پر تحریری امتحان میں پولیس ڈیوٹی کے متعلق نرمی کی جائے اور صحت مند تندرست ہونے کی صورت میں بھرتی کیا جائے۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ تحریری امتحان کے بجائے انٹرویو لیا جائے، خواہش مند امیدواروں کی اہلیت و قابلیت کو جانچا جائے اور جو معیار پر پورا اترتی ہوں، انہیں فوراً پولیس میں بھرتی کیا جائے، تو زیادہ مناسب رہے گا۔

ضلع کشمور میں لیڈی کانسٹیبل کی اسامیوں کی تفصیلات

ایس ایس پی آفس شیٹ برانچ کے ہیڈ کلرک منظور احمد ملک نے بتایا کہ پورے ضلع میں 20 تھانے ہیں جن میں 2500 پولیس اہلکار مقرر ہیں ، جبکہ لیڈی پولیس میں صرف ایک انسپکٹر سیدہ غلام فضا شاہ اور ایک لیڈی کانسٹیبل نصرین بانو ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ ضلع کے اندر خالی اسامیوں کے لیے 13 خواتین نے لیڈی کانسٹیبل کے لیے پی ٹی ایس لاڑکانہ سینٹر میں حصہ لیا ہے جبکہ ضلع کشمور میں کل چار اسامیاں ہیں، قابلیت کے حساب سے تقریباً میل اور فی میل یکساں ہے جبکہ ہائیٹ ٹیسٹ میں عورتوں کو رعایت دی جارہی ہے۔

شعور کی ضرورت

شہری و عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ محکمہ پولیس میں خواتین کی تعداد بڑھانے کے لیے حکومت و پولیس کے اعلیٰ افسران کو خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے، جب زندگی کے تمام شعبہ جات میں خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں تو پھر وہ پولیس فورس کا حصہ بن کر بھی بہترین خدمات انجام دے سکتی ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کی بھرتی کے طریقہ کار کو سہل بنایا جائے، جب کہ اس حوالے سے شعور بھی اجاگر کیا جائے، تاکہ پسماندہ علاقوں میں رہنے والی خواتین کے اندر بھی محکمہ پولیس میں بھرتی کی خواہش بیدار ہوسکے۔

Sindh Police

Women Police

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div