Aaj News

منگل, اپريل 23, 2024  
14 Shawwal 1445  

ایک کہتا ہے آزاد عدلیہ چاہیئے، دوسرا کہتا ہے آئین کے تابع عدلیہ چاہیئے، سپریم کورٹ

عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پرسماعت کل تک ملتوی کردی۔
شائع 10 مئ 2022 03:25pm

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پرسماعت کے دوران پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایک کہتا ہے آزاد عدلیہ چاہیئے، دوسرا کہتا ہے آئین کے تابع عدلیہ چاہیئے، آئین کے تابع پارلیمان،ایگزیکٹواورعدلیہ ہونی چاہیئے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، پی ٹی آئی کی طرف سے بابر اعوان نے دلائل دیئے۔

بابراعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یوٹیلیٹی بلزادا نہ کرنےوالا بھی رکنیت کااہل نہیں ہوتا،اگر آرٹیکل 63اے میں مدت کا تعین نہ ہوتونااہلی تاحیات ہوگی۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کوئی امیدوارآئندہ انتخابات سے پہلے بل ادا کردے توکیا تب بھی نااہل ہوگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بل ادا کرنے کے بعد نااہلی ختم ہوجائے گی، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہی نااہلی تاحیات ہے، جب تک نااہلی کا ڈکلیریشن عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقراررہے گی، یوٹیلیٹی بلزکی عدم ادائیگی پرنااہلی تاحیات نہیں ہوسکتی۔

بابراعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پرکوئی ڈی سیٹ ہواور15دن بعد دوبارہ پارلیمنٹ آجائے، ہوسکتا ہے دوبارہ منتخب ہوکرکوئی وزیربھی بن جائے، ایسا ہوجانا آرٹیکل 63 اے کے ساتھ مذاق ہے ۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ قانونی اصلاحات کریں، توبہ کا دروازہ توہمیشہ کھلا رہتا ہے۔

جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہاکہ آرٹیکل 63 (1) جی پڑھ لیں، آپ کہتے ہیں منحرف ارکان کوتاحیات نااہل کریں۔

بابراعوان نے کہا کہ انحراف کرنا بڑا سنگین جرم ہے،جس پر جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ میری نظرمیں آرٹیکل 63 (1) جی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے، آرٹیکل 63 (1) جی عدلیہ فوج کی تضحیک اورنظریہ پاکستان سے متعلق ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے بابر اعوان سے کہا کہ ہم نے آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا ہے، آپ کہہ رہے ہیں نااہلی کی میعاد نہ ہونے پر تاحیات نااہلی ہوگی۔

جسٹس منیب اخترنے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا آرٹیکل 62 ون ایف کے ساتھ تعلق کیسے بنتا ہے؟ ۔

جس پر بابر اعوان نے کہا کہ میری دلیل ہے کہ آرٹیکل 63 اے بذات خود منحرف رکن کو تاحیات ناہل کرتا ہے، کیا اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ 26 ارکان پارٹی چھوڑ جائیں؟ اس طرح تو اکثریتی جماعت اقلیت میں آجائے گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن کہا کہ آپ چاہتے ہیں آرٹیکل 63 اے کو اتنا سخت بنایا جائے کہ کوئی انحراف نہ کرسکے؟

جس پر بابر اعوان نے کہا کہ عوام کے پاس ووٹ کی طاقت کے سوا بولنے کا کوئی ذریعہ نہیں، 18ویں ترمیم میں کینسر کے علاج کیلئے ایک سرجیکل اسٹرائیک 63 اے میں بنائی گئی، 18ویں ترمیم دراصل متفقہ ترمیم تھی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون میں جرم کی مختلف سزائیں دی گئی ہیں، کیاعدالت سزا میں ایک دن کا بھی اضافہ کرسکتی ہے؟۔

اس پر بابر اعوان کی جانب سے مشرف مارشل لاء کی توثیق کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا اورکہا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کوآئینی ترمیم کا اختیاردیا تھا اس لئے عدالت کے اختیارات لامحدود ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھ سمیت سب کواپنی اصلاح کرنی چاہیئے اب بہت ہوچکا، اتنا حوصلہ بھی ہونا چاہیئے کہ ان فیصلوں کا حوالہ سن سکیں، سپریم کورٹ آخری امید ہے اس کے بعد سڑکیں اورجلسے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا کہ ایک کہتا ہے آزاد عدلیہ چاہیئے، دوسرا کہتا ہے آئین کے تابع عدلیہ چاہیئے، آئین کے تابع پارلیمان،ایگزیکٹواورعدلیہ ہونی چاہیئے۔

جس پر بابراعوان نے کہا کہ عدلیہ ہی سب کو آئین کے تابع کرسکتی ہے، عدلیہ صرف تشریح نہیں بلکہ اپنے فیصلوں سےقانون وضع کرتی ہے، عوام انصاف ہوتا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

بعدازاں تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آزاد رکن اسمبلی سے پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے حلف لیا جاتا ہے؟ کیا آزاد رکن یہ حلف دیتاہے کہ وہ پارٹی کے ہر فیصلے کا پابند ہوگا۔

ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے آزاد رکن تمام شرائط تسلیم کرتا ہے، منحرف ارکان سے قرآن پر حلف لیا ہے کہ ووٹ ہمیں ڈالنا ہے، یہ تلخ حقائق ہیں اور میں اس میں نہیں جانا چاہتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے منحرف ارکان کخلا ف کارروائی کا فورم مہیا کرتا ہے۔

جس پر اظہر صدیق نے کہا کہ منحرف ارکان ووٹ ڈال ہی نہیں سکتے، کیا عدم اعتماد کی تحریک وزیراعظم کی شکل پسند نہ ہونے پر بھی آسکتی ہے؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی سزا منحرف رکن کی رکنیت کا خاتمہ ہے،کیا آپ منحرف رکن کی سزا میں اضافہ چاہتے ہیں جس پر اظہر صدیق نے کہا کہ سزا میں اضافہ میرا کیس نہیں ہے،آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کے خلاف حفاظتی دیوار ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا تو اسے سزا کیسے ملے گی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ روایت بن گئی ہے کہ پیسوں سے حکومت گرائی جاتی ہے، چند لوگوں کی خرید و فروخت سے 22کروڑ عوام کا مستقبل داؤ پر ہوتا ہے، اراکین کی خرید و فروخت کے ذریعے حکومت گرانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔

ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے میثاق جمہوریت کا حوالہ دیا جس پر جسٹس جمال نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر پارلیمان کا اتفاق ہوتا تو آئین کا حصہ ہوتا،پارٹی لیڈر کو کسی نے نہیں روکا کہ منحرف ارکان کو سزا نہ دے،پارٹی سربراہ کو صرف اتنا لکھنا ہے کہ رکن منحرف ہوگیا ہے۔

ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے کہاکہ کرپشن کرنے والوں کیخلاف محکمانہ کارروائی بھی ہوتی اور فوج داری بھی۔

جس پر جسٹس جمال نے کہا کہ مناسب نہیں ہوگا اگر ہارس ٹریڈنگ اور کرپشن ثابت ہوجائے پھر کارروائی ہو؟ اظہر صدیق نے کہا کہ کرپشن ثابت ہونا اور منحرف ہونا الگ چیزیں ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا ءبندیال نے ریمارکس دیئے کہ منحرف ارکان کا ووٹ کس قانون کے تحت شمار نہیں ہوگا؟۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ق لیگ کے 2 ارکان نے پارٹی کخلا ف ووٹ ڈالا، ق لیگ کے سربراہ نے اختیار استعمال کیا اور کارروائی نہیں کی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ جمہوریت اور نظام کےلئو خطرہ ہے، ایسا ممکن نہیں کہ غلط کام کریں اور اس کا فائدہ بھی اٹھائیں، جرم کرنے والوں کو اس کا فائدہ لینے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟۔

ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ انحراف کی اجازت دینا مقصد ہوتا تو آرٹیکل 63 اے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف ملک کے فائدے میں بھی ہوسکتا ہے۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پرسماعت کل تک ملتوی کردی۔

Chief Justice

Supreme Court

اسلام آباد

justice umer ata bandiyal

presidential reference

Article 63 (A)

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div