Aaj News

جمعہ, مارچ 29, 2024  
18 Ramadan 1445  

اپوزیشن اور حکومت ہوش کے ناخن لیں

سیاسی روایت ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں اکثر...
شائع 10 دسمبر 2020 08:40pm

سیاسی روایت ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں اکثر اختلافات رہتے ہیں اور پاکستان میں تو اس کی بہت زیادہ مثالیں ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو ڈھائی برس ہوچکے ہیں لیکن اب تک اپوزیشن اور حکومت ایک پیج پر نہیں آسکے۔ ان ڈھائی برسوں میں حکومت نے اپوزیشن کو ایک پیج پر لانے کے لیے کچھ کیا اور نہ ہی اپوزیشن حکومت کے ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ حکومت کسی نہ کسی طرح اپوزیشن کو دبا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن شروع دن سے موجودہ حکومت کو گرانا چاہتی ہے۔ حکومت اپوزیشن پر الزامات لگا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن حکومت پر ساسی انتقام کا الزام لگا رہی ہے۔ ان تمام تناظر میں اور موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کی غرض سے اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کے نام سے ایک تحریک کا آغاز کیا ہے اس تحریک میں موجود سیاسی جماعتوں کے قائدین کے بقول ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام، معاشی عدم استحکام اور دیگر مسائل کے ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا رہی ہے جبکہ دوسری طرف حکومتی وزراء اور وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک کا مقصد اپنی کرپشن چھپانا ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) جلسوں کا آغاز کرچکی ہے ملتان میں حکومت کی طرف سے جلسے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود پاکستان پی ڈی ایم نے جلسہ کیا، اب ان کا اگلا ہدف لاہور(مینار پاکستان) کا جلسہ لیکن اس جلسے سے ایک ہفتہ قبل ہی سیاسی گہما گہمی پیدا ہوگئی ہے۔ پاکستان پی ڈی ایم نے منگل کے روز مشترکہ میٹنگ کی جس میں بہت سے سنسنی خیز فیصلے کیے۔ میٹنگ کے اختتام پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر اور جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین 31 دسمبر تک استعفیٰ اپنے قائدین کو جمع کروائینگے، اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک گیر مظاہرے، شٹر ڈاؤن ہڑتال اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے بھی فیصلے ہونگے۔ اس وقت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مکمل طور پر اس بات پر قائل ہے کہ موجودہ حکومت کو ہر صورت گھر بھیجنا ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا اس کا نتیجہ بھی عمران خان کی 126 روزہ دھرنے جیسا ہوگا یا حقیقی معنوں میں حکومت چلی جائیگی؟

اب صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین نے تو استعفے دینے پر اکتفا کرلیا ہے لیکن کیا پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ممبران بھی اپنے قائدین کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرینگے؟ جبکہ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے جو ممبر استعفیٰ دینگے اس نشست پر ضمنی الیکشن کرائینگے ان تمام سوالات کے جوابات لاہور جلسے کے بعد واضح ہوجائینگے۔

ایک طرف کورونا کی دوسری لہر تو دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی شدت اختیار کرتی جارہی ہے اگر اپوزیشن کی طرف سے استعفے آتے ہیں اور ملک میں ری الیکشن ہوتے ہیں تو اس کا اثر ملکی خزانے پر پڑے گا۔ ایک تو ملک میں عوام پہلے سے ہی مہنگائی کی چکّی میں پس رہی ہے اور اگر اس دوران ری الیکشن ہوتے ہیں تو معیشت میں مزید عدم استحکام پیدا ہوجائیگا اور موجودہ دور میں پاکستان ری الیکیشن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

حکومت کو ڈھائی برس ہوچکے ہیں اور ڈھائی برس باقی ہیں۔ اس معینہ مدت تک حکومت کو چلنے دیا جائے اگر واقعی حکومت اور اپوزیشن عوام کی خیرخواہ ہے تو حکومت اور اپوزیشن کو عوام کی ریلیف اور ایک پیج پر آنے کے لیے سنجیدگی دیکھانے ہوگی۔ اس وقت ملک میں کورونا کی دوسری لہر ہے جہاں دنیا کورونا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کررہی ہیں وہیں پاکستان میں سیاسی کشمکش اور کشیدگی ہیں موجودہ حالات میں ملک نہ ری الیکشن اور نا ہی جلسے جلوسوں کا متحمل ہوسکتا ہے۔موجودہ حالات سے نمٹنے اور عوام کی خاطر حکومت اور اپوزیشن کو ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے۔

تحریر: سعید خان صافی
تحریر: سعید خان صافی

بلاگر کا تعلق کراچی سے ہے جو وفاقی اردو یونیورسٹی میں ابلاغِ عامہ کے طالبعلم ہیں۔ ملک کی سیاسی و سماجی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ان موضوعات پر لکھتے ہیں۔ بلاگر سے ای میل ایڈریس [email protected] یا ٹوئٹر اکاؤنٹ SaeedKhanSafi9@ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

درج بالا تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہوسکتی ہے، آج نیوز اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div