Aaj News

ہفتہ, اپريل 20, 2024  
11 Shawwal 1445  

جدید دور کا بدترین تعلیمی سال 2020۔۔۔

جدید دور کا بدترین تعلیمی سال 2020 جس میں والدین مشکلات کا مستقل...
شائع 09 دسمبر 2020 06:31pm

جدید دور کا بدترین تعلیمی سال 2020 جس میں والدین مشکلات کا مستقل شکار، طلباء ذہنی، نفسیاتی دباؤ اور تعلیمی ادارے تاریخ کےآفت زدہ دور سے گزرے۔ عالمی وباء کورونا وائرس کے باعث ملک بھر کےتعلیمی نظام میں نت نئے تجربات ہوئے، سب سے بڑا تجربہ سندھ کےاسکولوں میں زیر تعلیم 90 لاکھ طلباء پر ہوا جنھیں بغیر امتحان لئے پرموٹ کردیا گیا یعنی بچہ قابل ہو یا نالائق فیل نہیں کیا گیا اور یہ اطلاع جب میڈیا کےذریعے طلباء کو ملی تو کسی نے شکرانے کےنفل پڑھے اور بیشتر نہ پڑھنے والوں کی تو گویا لاٹری نکل آئی۔۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ طلباء و طالبات جنھوں نے اپنے بہتر مستقبل کے خواب دیکھے، دن رات ایک کرکے محنت کی انکے خواب چکنا چور ہوگئے۔

ایک اور بڑا تجربہ یوں کیا گیا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سات ماہ سے زائد عرصے تک تعلیمی ادارے بند رہے۔ کورونا وائرس کا پہلا کیس کراچی میں 26 فروری کو رپورٹ ہوا اور 27 فروری سے سندھ میں جبکہ 15 مارچ سے ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے جس کا ناقابل تلافی نقصان تعلیم کو پہنچا اب صورتحال یوں ہے کہ 25 سے 30 فیصد بچہ اسکول کھلنے کےبعد واپس نہیں آیا وہ بچے یا تو چائلڈ لیبر کا شکار ہوگئے یا پھر انھوں نے تعلیم ہی چھوڑ دی۔ عالمی اداروں کے مطابق دنیا بھرمیں ایک کروڑ سےزائد بچے اب تعلیم کی طرف واپس نہیں آسکیں گے تعلیمی ماہرین نےمحتاط اندازہ لگاتےہوئے کہا ہے کہ پاکستان جسکا تعلیمی نظام بنگلہ دیش سےبھی پیچھے جاچکا تھا، کورونا وباء کے باعث اب معمول پر آنےکےلئے کم از کم 12 سال درکار ہونگے۔ اس سال سب سےبڑا دھچکا پرائیویٹ اسکولوں کو لگا سندھ بھر میں تقریبا 13 ہزار اور کراچی میں 8 ہزار سےزائد بڑے چھوٹے پرائیویٹ اسکولز موجود ہیں حکومتی زیادتیوں کے باعث لگ بھگ ایک ہزار اسکول بند ہوچکے ہیں ، حکومت وقت نےتعلیم کےسلسلے میں جو ذمہ داریاں لیں ان میں سےایک کوبھی نہیں نبھایا ۔۔۔ایک تجربہ آن لائن تعلیم کا ہوا ایک سماجی فاصلے کا، یہاں بھی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں آن لائن تعلیم کا حصول ممکن نہیں ہےکیونکہ ابھی ہم اتنے ترقی یافتہ نہیں ہوئے کہ آن لائن ایجوکیشن کو چلاسکیں اسکا نتیجہ کلاسز کےدوران گھروں میں اصل طالبعلم کی جگہ کسی اور کا بیٹھنا اور آن لائن پیپرز میں 100 فیصد نقل کی صورت میں سامنے آیا، نجی اسکولوں سے وابستہ سینکڑوں اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ نوکریوں سےنکال دیا گیا اور جنکی نوکری باقی رہی انکی تنخواہوں میں کٹوتیاں ہوئیں۔

طلباء وطالبات کی روٹین برباد ہوئی اسکرین ٹائمنگ بڑھی، اسکول تباہ ہوئے ایک تعلیمی سال ضائع ہوگیااور دوسرا رسک پر لگا یا جاچکاہے۔ اس صورتحال میں والدین بیروزگاری کی وجہ سے اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرسکےبعض پریشان حال والدین نے مجبوری میں بچوں کی تعلیم رکوائی اور بیشتر والدین پر فیسوں کا اضافی بوجھ رہا جو اب بھی برقرار ہے۔۔۔ نفسیاتی دباؤ کے ساتھ ساتھ اخلاقی مسائل بھی رونماء ہوئے۔۔۔کالجوں اور جامعات کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہےمیٹرک کی طرز پر انٹرمیڈیٹ میں بھی بچوں کو پروموٹ کیا گیا جامعات میں جہاں طلباء کی تعلیم زوال پذیر رہی وہیں ریسرچ کا شعبہ بھی مشکلات سے گزرا۔۔۔ جامعہ کراچی اور آئی بی اے نے پہلی بار آن لائن کلاسز لیں اور این ای ڈی یونیورسٹی نے تاریخ میں پہلی مرتبہ داخلے فرسٹ ائیر کےنتائج کی بنیاد پر دئیےاسکولوں کےساتھ ساتھ پہلے ہی مالی بحران کا شکار جامعات مزید پستی کی طرف چلی گئیں۔

اس بلاگ کے مصنف کامران شیخ
اس بلاگ کے مصنف کامران شیخ

پرائیویٹ اسکولوں کی نمائندہ تنظیموں نے احتجاج کئےاپنے مسائل سے حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کو آگاہ کیا لیکن انکےمسائل کاایک فیصد بھی سدباب نہیں کیا جاسکا، چئیرمین آل پرائیویٹ اسکولز مینیجمنٹ ایسوسی ایشن سندھ سید طارق شاہ اورسندھ پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کےچئیرمین حیدر علی نے گفتگو کرتے ہوئے اسکولوں کو پیش آنیوالی پریشانیوں اور موجود ہ تعلیمی صورتحال پر سخت تشویش ظاہر کی ان رہنماؤں نے کہا ہے کہ حکومت سندھ نے پرائیویٹ سیکٹرکو لاوارث چھوڑ دیا انکےمطالبات ہیں کہ نجی اسکولوں کو سبسڈٰی دی جائے، ٹیکسز معاف کئے جائیں اور حکام نےجو سونے پر سہاگہ ٹیکسز اور لیٹ فیس لگائی ہے انھیں فی الفور ختم کیا جائے، اسکول انڈسٹری اسوقت شدید بحران میں ہے انھیں بلاسود قرضے فراہم کیئے جائیں۔

سندھ میں تقریبا 10 ہزار سےزائد ہائیرسیکنڈری، ایلیمینٹری، لوئر سیکنڈری اور پرائمری اسکولز ہیں جبکہ کراچی میں تعداد 3 ہزار سےزائد ہے، بیشتر سرکاری اسکولوں میں انرولمنٹ کی شرح شرمناک حد تک کم ہے کہیں بلڈنگ خستہ حال تو کہیں پینے کا پانی تک دستیاب نہیں ہے۔۔۔جبکہ چار سالوں سےسندھ میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہے اور سرکاری نظام تعلیم اسوقت بھی زوال پذیر ہےسال 2020 میں تعلیم کا قلمدان سعید غنی کو سونپا گیا اس دوران چار سیکریٹریز بھی تبدیل ہوئے۔۔۔۔ تعلیمی بورڈ ز اب بھی ایڈہاک ازم کا شکار ہیں ، میٹرک بورڈ کراچی، انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی،سندھ ٹیکنیکل بورڈ، لاڑکانہ ، میرپورخاص، نوابشاہ، حیدرآباد، سکھر میں چئیرمینز کی مدت تعیناتی ختم ہونے کے باوجود نئے چئیرمینز کا تقرر التواء کا شکار ہے جبکہ سیکریٹری اور ناظم امتحانات کی اسامیوں پر بھی قائم مقام افسران سےکام چلایا جارہاہے۔۔۔۔

کورونا وائرس سےبچاؤ کےلئے اتنی احتیاط برتی گئی کہ سات ماہ سے زائد عرصے تک اسکول بند اور 15 ستمبر سے کھولے گئے اور پھراچانک دوبارہ بند کردیئے گئے، بچوں کو پڑھے بغیرہی پاس کیا گیا جوکہ بچے کی شخصیت پر زندگی بھر کےلئے ایک بدنماء داغ ہےیہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسٹئیرنگ کمیٹی کےاجلاس میں تعلیمی بورڈز کے چئیرمینز نے ایس او پیز کےساتھ امتحانات لینےکےلئے مکمل فارمولے اور طریقہ کار بتائے تھے جس میں سماجی فاصلے کوبھی زیرغور رکھا گیا تھا لیکن سندھ سرکار نے یہ تمام تجاویز رد کردیں جسکے نتائج مستقبل میں انتہائی بھیانک ہوسکتے ہیں سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود ٹاپ ٹرینڈ تو بنےہوئے ہیں لیکن تاریخ میں یہ بات یاد رکھی جائیگی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جو تعلیم کےلئے جدید دور کا بدترین سال رہا جس میں ہونیوالی تعلیمی بربادی کا خاتمہ آئیندہ کئی سالوں تک نہیں ہوسکےگا۔

تحریر: کامران شیخ

درج بالا تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہوسکتی ہے، آج نیوز اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div