Aaj News

جمعرات, مارچ 28, 2024  
17 Ramadan 1445  

مسئلہ عورت نہیں بلکہ غلیظ سوچ ہے

زمین پھٹی نہ آسمان گرا۔۔۔ وطن عزیز میں ایک اور حوا کی بیٹی ...
شائع 14 ستمبر 2020 10:13pm

زمین پھٹی نہ آسمان گرا۔۔۔ وطن عزیز میں ایک اور حوا کی بیٹی درندوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ حالیہ برسوں کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے لرزا دینے والے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ رواں سال کے ابتدائی 6 ماہ میں ملک بھر میں یومیہ 8 سے زائد بچوں کو انسان کی شکل میں درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ دوسری طرف جنسی ہراسگی اور عصمت دری کے واقعات میں پاکستان پہلے ہی دس بدترین حالات سے دوچار ملکوں میں شامل ہے۔

آج جس واقعے کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ سیالکوٹ اور لاہور موٹروے پر پیش آیا، ایک خاتون اپنی گاڑی میں بچوں کے ساتھ رات تقریباً بارہ سے دو بجے کے درمیان اپنے گھر جانے کے لیے نکلی کہ راستے میں اس کی گاڑی میں پٹرول ختم ہوگیا۔ اس نے مدد کے لیے اپنے عزیز کو اطلاع دی اور ساتھ ہی موٹروے پولیس کو بھی آگاہ کیا مگر موٹروے پولیس نے اُن کی مدد کرنے کی بجائے کوئی اور مقامی نمبر تھمادیا، خاتون نے اس پر بھی فون کیا اور ان کی یقین دہانی کرانے کے بعد مدد کا انتظار کرنے لگیں۔

خاتون کا انتظار جاری ہی تھا کہ اچانک سے دو حملہ آور نمودار ہوئے، اُنہوں نے خاتون کی گاڑی کے شیشے توڑے اور قریبی کھیتوں میں کے جاکر بچوں کے سامنے ماں کے ساتھ زیادتی کی اور اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔

یہ لوگ انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں جنہوں نے موٹر وے پر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی، ہرگز یہ لوگ انسان نہیں ہوسکتے بلکہ انہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہوگا۔

پہلے معصوم بچیوں زینب، فرشتہ اور مروہ کو درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور اب ایک ماں کو اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنادیا گیا جس پر ملک بھر میں احتجاج ہورہا ہے۔ ملزمان گرفتار ہوتے ہیں سزائیں ملتی ہیں مگر اس کے باوجود اس قسم کے واقعات پے در پے سامنے آررہے ہیں۔

بدقسمتی سے مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری مائیں اور بہنیں کہیں بھی محفوظ نہیں۔ تفریحی مقامات، بازار اور جامعات سمیت ہر جگہ انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس قسم کی حرکات سے ہماری باعزت ماؤں اور بہنوں کو گھروں سے باہر نکلنے میں بھی خوف آتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ اُن کی تصاویر اور ویڈیوز کو وائرل کرکے بھی انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔

ہم نے آزادی ریاست اس لیے حاصل کی تھی جہاں خواتین کا خیال رکھا جائے اور کی عزتیں محفوظ ہوں مگر بدقسمتی سے معاشرے میں چند ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو یقیناً عقل سے خالی ہیں اور ان کے اخلاقی کردار کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

عورت باہر نکلے تو مسئلہ، اسکول جائے تو مسئلہ، مرضی کی شادی کرے تو مسئلہ، نوکری کرے تو مسئلہ بلکہ میں یہ کہوں تو بھی غلط نہیں ہوگا کہ اگر کسی غیر سے بات بھی کرلے تو بھی مسئلہ۔۔۔ آخر یہ سب انگلیاں عورت کی طرف ہی کیوں اٹھتی ہیں؟ لگتا ایسا ہے کہ یہ مسئلہ عورت کا نہیں بلکہ اس گندی اور غلیز سوچ کا ہے جو انہیں آگے بڑھنے سے روکتا ہے اور جو عورت کے ہر کردار پر اس کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتا مگر میں کہتا ہوں کہ ہم کون ہوتے ہیں اجازت دینے والے ان پر اپنی مرضی تھوپنے والے اور عورت سے اس کی آزادی چھیننے والے؟

اسلام کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے عورت کو وہ سب حقوق حاصلِ ہونے چاہئیں جس کی اجازت دین دیتا ہے۔ اب وقت اگیا ہے کہ درندوں کو نشان عبرت بنایا جائے، عزت اور عفت کے قاتلوں کو نشان عبرت بنانے کا حکم قرآن میں ہے۔

ملک میں ہر طرف ایک ہی آواز گونج رہی ہے کہ وحشی درندوں کو سرعام لٹکایا جائے، اس قسم کی واقعات کی روک تھام کیلئے اور اپنی نسلوں کو اس وحشی درندوں سے بچانے کیلئے سخت فیصلے کرنے ہونگے تاکہ خواتین ایک بہتر اور آزاد فضا میں سانس لے سکیں اور اپنی مرضی کے مطابق جی سکیں۔۔۔

تحریر :کاوش میمن

درج بالا تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہوسکتی ہے، آج نیوز اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div