Aaj News

جمعرات, اپريل 25, 2024  
16 Shawwal 1445  

'وہ تصویریں کھینچتی ہے، پستول نہیں چلاتی'

شائع 21 اپريل 2020 06:55am

بھارتی حکام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی نوجوان فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بھارتی حکومت کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

مسرت زہرا پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹس کے ذریعے کشمیریوں کو بھارتی حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر اکسایا ہے۔

18 اپریل کو مسرت نے اپنی ایک ٹویٹ میں ایک کشمیری خاتون کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ 'عارفہ جان کو اس وقت سے شدید گھبراہٹ کے دورے پڑتے ہیں جب 2000 میں ان کے شوہر کو انڈیا کے فوجی اہلکاروں نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔'

انہوں نے کشمیری خاتون کے بارے میں بتایا کہ 'جب وہ اپنے شوہر کے بارے میں سوچتی ہیں تو انہیں آج بھی گولی چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے اور اپنے شوہر کا خون سے تر جسم ان کے سامنے آجاتا ہے۔'

مسرت زہرا نے اخبار کے تراشوں کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ عارفہ جان نے وہ اخبار کے تراشے اور  خون سے آلودہ کچھ کاغذ سنبھال رکھے ہیں جو ان کے شوہر عبدالقدیر خان کے پاس تھے جب انہیں بھارتی فوج کے اہلکاروں نے دہشتگرد سمجھ کر ہلاک کر دیا تھا۔

سوشل میڈیا پر اس وقت ہیش ٹیگ IStandWithMusaratZahra#  ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے جس میں سوشل میڈیا صارفین کشمیری صحافی کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے آزادی اظہار رائے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ادیتیا مینن نامی صارف نے لکھا کہ مسرت زہرا ایک بہادر اور ایمان دار صحافی ہیں۔ ان پر لگائی گئی دفعات بزدلی اور ان لوگوں کو دبانے کی ایک کوشش ہے جو کشمیر کے حقائق سامنے لا رہے ہیں۔

ایک اور صارف ماہ رخ نے مسرت زہرا اور گنگولی رناوت کی ٹویٹس کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ایک صحافی پر غیرقانونی سرگرمیوں کے تحت مقدمہ درج ہوسکتا ہے تو دوسری خاتون موت کی سزا سے کم کی حق دار نہیں ہیں۔

سدرہ نامی صارف نے لکھا کہ 'صحافیوں کو ڈرانا بند کریں، سچ بولنے کو جرم باننا بند کریں، مسرت زہرا کشمیر میں ظلم کی کہانیاں سامنے لاتی ہیں۔ ان کے خلاف دفعات ختم کی جائیں.'

کائیشر کے نام سے ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا کہ 'وہ تصویریں کھینچتی ہے، پستول نہیں چلاتی۔'

ایک اور صارف مائرہ مہراج  نے لکھا کہ 'اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ آنکھیں رکھیں مگر دیکھیں مت، رائے رکھ سکتے ہیں لیکن اظہار نہیں کرسکتے۔'

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div