Aaj News

ہفتہ, اپريل 20, 2024  
11 Shawwal 1445  

خود ساختہ غربت

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2019 07:48am
Image result for poverty pakistan ٖفائل فوٹو

اس دنیا میں چار قسم کی اقوام ہیں، ترقی یافتہ، ترقی پذیر، جنگ زدہ اور غریب۔ اتفاقیہ، مزاحیہ اور حیرانیہ طور پر ہم پاکستانی  ان چار میں سے تین پر سو فیصد پورا اترتے ہیں۔ جنگ تو ہم پر مسلط ہمارے اپنے سابقہ حکمرانوں نے کی ہے۔ ہماری ترقی کا چنگچی بھی آہستہ آہستہ منزل کی جانب گامزن ہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم غریب کیوں ہیں؟ ہمیں غریب اقوام میں کیوں شمار کیا جاتا ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟

ایک سچا پاکستانی ہونے کے ناطے ہماری عادت ہے کہ ان سوالات کے درست جوابات و وجوہات ڈھونڈنے سے پہلے ہم اس شخص کو ڈھونڈتے ہیں جس کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکے، جس پر سارا ملبہ ڈالا جاسکے۔ جبکہ بلی کا بکرا ہمیشہ حکومت ہی بنتی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے اس لئے ملک میں غربت ہے۔

آپ بھی یہی سوچتے ہونگے کہ واقعی عوام ٹیکس تو دیتے نہیں، ملک میں سرمایہ کیسے جمع ہوگا۔ لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا؟ اگر آپ کا بجلی کا بل چھ ہزار روپے آرہا ہے تو اس میں اوسطاً پچیس سو  روپے ٹیکس شامل ہوتا ہے۔ جو گیس آپ استعمال کررہے ہیں اس کے بل میں ٹیکس، پانی کے بل میں ٹیکس، اگر آپ شیمپو کے ایک ساشے سے لے کر بسکٹ بھی خریدیں تو اس کی قیمت میں ٹیکس شامل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی پانچ سال کا بچہ اپنے جیب خرچ سے کولڈ ڈرنک بھی خرید کر پی رہا ہے تو وہ بھی ٹیکس دے رہا ہے۔

اب اگر ہر چیز پر ٹیکس موجود ہے تو حکومت کیسے کہہ سکتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے؟ ملک میں جو سامان ِ ضرورت کی اتنی خرید و فروخت ہو رہی ہے، اس پر لاگو ٹیکس کا اربوں روپیہ کہاں جارہا ہے؟ اس سے ہمیں کوئی فائدہ حاصل کیوں نہیں ہورہا؟ وہ ایک الگ بحث ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عوام بے قصور ہے۔ ہم اور آپ بھی قصوروار ہیں، کیونکہ ہم نے خودساختہ غربت خود پر مسلط کی ہوئی ہے۔ جس کا اثر ملک کے دوسرے لوگوں پر بھی ہورہا ہے۔ فرض کریں کہ آپ دفتر میں ہیں اور آپ کو بھوک لگی ہے، دفتر کے سامنے ایک بریانی کا ٹھیلا ہے جو پچاس روپے فی پلیٹ چکن بریانی دے رہا ہے۔ آپ نے بریانی کھائی آپ کا شکم سیر ہوا اور آپ نے الحمدُاللہ کہہ کر پتلون سے ہاتھ پونچھے اور دوبارہ اپنے دفتری امور میں مگن ہوگئے۔

اب ذرا یہ منظر تصور کریں، آپ دفتر سے باہر نکلے، وہاں ایک ٹھیلے پر وہی پچاس  روپی والی بریانی، جبکہ تھوڑی دور دُکان پر وہی بریانی ایک سو بیس روپے فی پلیٹ مل رہی ہے، حالانکہ اس میں کوئی شہنشاہ اکبر کے مغلیہ دڑبے کی پلی ہوئی شاہی مرغی نہیں ڈلی ہوئی۔

یقیناً آپ اس ایک سو بیس روپے والی بریانی کی طرف لپکیں گے۔ وجہ؟ دل کی تسلّی۔ آپ نے سوچا مہنگا ہے تو اچھا ہوگا صاف ستھرا ہوگا، حالانکہ آپ کا دماغ جانتا ہے کہ یہ بریانی بھی اسی طرح، انہی حالات میں پکی ہوئی ہے جن میں پچاس روپے والی پکائی جاتی ہے۔  اس کا اثر کیا ہوا؟ غریب بریانی والا غریب رہ گیا اور امیر بریانی والا مزید کما گیا۔

اگر ہم خود کو کفایت شعار بنا لیں، بانٹنا  اور تھوڑے میں جینا سیکھ لیں تو یقیناً ہم اس ملک سے غربت کا خاتمہ نہ سہی لیکن اس شرح میں کمی ضرور کر سکتے ہیں،   بانٹنے سے بڑھے گا، جمع کرنے سے مزید کم ہوگا۔

اپنے دل کو ہر قسم کے حالات میں مطمئن کرنا سیکھیں، اگر آپ کے پاس پہننے کو پانچ جوڑے ہیں تو آپ غریب نہیں ہیں، اگر آپ کے پاس کھانے کو کم سے کم دو وقت کا کھانا بھی ہے تو آپ غریب نہیں ہیں، خود کو غریب سمجھنا چھوڑ دیں۔ اپنی کمائی میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں، جو واقعی غریب ہیں انہیں تحائف دیں۔

اس کیلئے اللہ کے نبی ﷺ نے جو نظام مرتب کیا ہے اس کے تحت چلیں، آپ دیکھیں گے کہ اس ریاستِ خداداد میں بھی وہ وقت آئے گا جب آپ صدقہ زکوٰۃ دینے کیلئے کوئی سائل ڈھونڈیں گے لیکن لینے والا کوئی نہ ہوگا۔

خود کو بدلیں،  سب بدل جائے گا۔

سفیرالٰہی-

نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div